۔۔۔اذان سے پہلے درود شریف پڑھتے وقت ایک خطا کی طرف توجہ۔۔۔
قل الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفى
آپ فرما دیجیےتمام خوبیاں اللہ کی ہیں (درود) اور سلام ہو نبی کریم ﷺ پر (تفسیر ابن عباس)
پوری کائنات کووجود اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے ملتا ہے۔ اور انسانیت کی بقا ہر لمحہ اُسی رحمتِ الٰہی کی مرہونِ منت ہے۔ یعنی اسکی رحمت کی محتاج ہے۔ اوراس کائنات میں اگر کوئی ہستی سراپا رحمت ہے تو وہ صرف سیدنا محمد ﷺ کی ذات اقدس ہے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين” اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”
لہٰذا اللہ کی رحمت کے حصول کا واحد اور کامل ذریعہ آپ ﷺ کےساتھ وابستگی ہے۔ جو صرف آپﷺ کی اطاعت یعنی فرمانبرداری اور اتباع کو نہائت تعظیم و تکریم کے ساتھ اختیار کرنا ہے۔ آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ سے وابستگی ہی وہ وسیلہ ہے جس کے ذریعے بندہ رحمتِ الٰہی سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ اور درود شریف وہ دعاہے جس کے ذریعے ایک مومن آپﷺ پر درود بھیجتا ہے۔ اس درود کی اہمیت نہ صرف نبی کریم ﷺ کی محبت کا مظہر بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
جبکہ درود شریف پڑھنے میں بوجہ عدم توجہ ایک خطا ہو رہی ہے جس میں تمام مکاتب فکر بالخصوص اہل سنت بریلوی مسلک کے تمام جید علماء، فقہاء، محدثین و مفسرین کو دعوتِ فکر ہے کیونکہ اہلِ دانش کا اس مسئلے پر متفق ہونا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو جو لاعلمی میں ایک عظیم عبادت اور حکم رب العالمین کی اطاعت میں غفلت برتنے سے آگاہی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
خطا یہ کہ الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ میں صرف صلّ کے صیغے کے ساتھ درود پڑھنا یہ نا درست ہے۔ کیونکہ بارگاہ الہی میں التجا کیے بغیر آپﷺ پر درود نہیں بھیجا جا سکتا۔اوراس طرح بغیر اللہ کے صیغے سے درود پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
إن الله وملائكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما . ”بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھتیجے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی آپ پر درود بھیجا کرو اور سلام بھیجا کرو تسلیمات کے ساتھ“ (یعنی نہایت عجز و انکساری کے ساتھ(
یہاں دو الفاظ صلوا اور سلموا ہیں یعنی درود اور سلام ، دونوں کو ادا کرنے طریقے الگ الگ ہیں۔
لفظ صلّوا (درود) کیا ہے اور اسے کیسے ادا کرنا ہے ؟
مختصراً یہ کہ لفظ صلّوا (درود) لغت میں اسکے معنی پہنچانا، عطا کرنا، کچھ دینا، دعا اور رحمت کے بھی آتے ہیں۔
“اس آیہ مبارکہ میں جو حکم صادر ہوا کہ حضورِ اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجا جائے اس عظیم امر کی ادائیگی کیلیے بندۂ مومن کو چاہیے کہ بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوکر عجز و انکساری کے ساتھ عرض کرے کہ: یا ربّ العالمین! تیرا حکم ہوا ہے کہ تیرے نبی ﷺ پر درود بھیجا جائے، مولائے کریم میں کہاں اس لائق اورنہ ہی میرے اختیار اور طاقت میں ہے کہ میں تیرے حبیبﷺپر درود بھیج سکوں۔ اپنی لاچارگی اور بے بسی تسلیم کرتے ہوئے عرض کرے۔ یا ربّ العالمین! توہی عطا فرما جو تیرے نبی ﷺ کی شانِ أقدس کے شایانِ شان ہے۔ تو ہی وہ رحمتیں، برکتیں، عطائیں اور درود عطا فرما جو تیرے نبی ﷺ کے شایانِ شان ہوں۔
اسی لیے درود شریف تمام تر احادیث میں اللھم صلّ علی محمد اور صلّی اللہ علیہ وسلم کے صیغے ساتھ آیا ہے۔ اللھم کا مطلب ہے یااللہ اور اللھم صلی علی محمد کے معنی یہ بیان کیے گئے ہیں کہ اے اللہ محمد مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت عطا فرما، دنیا میں ان کا دین بلند اور ان کی دعوت غالب فرما، ان کی شریعت کو بقا عنایت فرما اور یوم ِآخرت میں ان کی شفاعت ہمارے حق میں قبول فرما۔
مندرجہ بالا حدیث پاک میں درود بھیجنے کا طریقہ خود حضورِ اکرم ﷺ سے ثابت ہے:
عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: لقيني كعب بن عجرة، فقال: الا اهدي لك هدية؟ إن النبي صلى الله عليه وسلم خرج علينا، فقلنا: يا رسول الله، قد علمنا كيف نسلم عليك، فكيف نصلي عليك؟ قال:” فقولوا: اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجید۔ (متفق علیہ)
عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ کیا میں تمھیں ایک تحفہ نہ دوں؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے تو ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ! ہم یہ تو جان گئے ہیں کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں، لیکن (یہ نہيں معلوم کہ) ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: تم کہو: اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد
شرح: صحابہ رضی اللہ عنہم کو جب یہ معلوم ہو گیا کہ التحیات میں “السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاتہ…” کہہ کر آپﷺ پر سلام بھیجا جائے گا، تو آپﷺ سے پوچھا کہ آپﷺ پر درود کیسے بھیجا جائے؟ جواب میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو آپﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ بتا دیا، جو کچھ اس طرح ہے: “اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمد”
اوراللھم صلّ علی محمد کے ساتھ درود کا مطلب یہ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ سے التجا کی جاتی ہے کہ اے اللہ محمد ﷺ پر رحمت اور سلامتی نازل فرما دیجیے۔
مشکوٰۃ شریف کی حدیث مبارکہ میں ہے ’’عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قال کنت مع النبی ﷺ بمکۃ ،فخرجنا فی بعض نواحیھا ،فما استقبلہ جبل ولا شجر الا وھو یقول: السلام علیک یا رسول اللہ‘‘مطلب’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں حضورﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا اور تو ہم مکہ کے نواح میں نکلے تو سامنے آنے والا ہر شجر و حجر کہہ رہا تھا: السلام علیک یا رسول اللہ کہتا‘‘۔ (مراقاۃ شرح مشکوٰۃ ،حدیث:۵۹۱۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)۔
اس حدیث مبارکہ میں ’’السلام علیک یارسول اللہ‘‘ کا ذکرہے صرف السلام کا ذکر ہے یعنی سلمو، کیونکہ سلام کرنے کا حکم تسلیمات کے ساتھ آیا ہے اور اس کا تعلق بندۂ مومن کی طرف سے ہے لہذا بندۂ مومن السلام علیک یارسول اللہ نہائت عجزوانکساری کے ساتھ حضوراکرمﷺکی بارگاہ میں پیش کرے۔
جبکہ قبل از اذان جو درود و سلام پڑھا جاتا ہے ”الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” اس میں صلّ یعنی درود اللہ کے صیغے کے بغیر پڑھا جاتا ہے جو کہ نا درست ہے اور خطا ہے ۔کیونکہ لفظ الصلوة میں نسبت اللہ کی طرف نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کا ذکر ہوا یعنی صلّ(درود) انسان کی اپنی طرف سے عطا اسکی طاقت سے باہر ہے ساری عطائیں اللہ ہی کی طرف ہوتیں ہیں اس لیے ایسے ”الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” بطور درود پڑھنا درست نہ ہوگا بلکہ اس میں سلام کہنا درست ہوگا۔
قبل از اذان اگر یہ درود شریف پڑھ لیا جائے تو آیہ درود کے حکم پر عمل بھی ہو جائے گا جوکہ الفاظ میں مختصر بھی ہے اور بلحاظ مفاہیم مفصل بھی
صلی اللّٰہ تعالٰی علٰی حبیبہ سیدنا محمد وآلہ وبارک وسلم۔
یا
یا نبی السلام علیک ۔۔۔۔ صلوة اللہ علیک
بہارِشریعت، حصہ سوم کے باب “درود شریف کے فضائل و مسائل” میں مصنف نے درود شریف کی ادائیگی میں تخفیف کو ناجائز اور سخت حرام قرار دیا ہے۔ “الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” میں الصلوة (صلّ) میں لفظ اللہ کی تخفیف بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
دورِحاضرہ میں بہت سے پڑھے لکھےحضرات خواہ وہ کوئی سکالر ہو، ڈاکٹر ہو، انجینیئرہو، مبلغ ہو، واعظ ہو، مدرس ہو یا کوئی بھی مقرر ہو دورانِ تقریر جہاں پر آنحضرتﷺ کا ذکر آجائے تو ﷺ کہنے کی بجائےبڑی دیدہ دلیری اور روانگی سے صلاسلم کہہ کر اپنی بات جاری رکھتے ہیں۔ درود شریف میں اس تخفیف کو بہارِشریعت میں ناجائز سخت حرام قرار دیا ہے۔
دورِحاضرہ میں چند مذہبی تنظیمیں چندہ اکٹھا کرنےکی غرض سے درود شریف پڑھتے ہوئے جھولیاں پھلا کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ بہارِشریعت کے اسی باب میں اس مسؔلہ کو اس طرح بیان کیا ہے۔ “گاہک کو سودا دکھاتے وقت تاجر کا اس غرض سے دُرود شریف پڑھنا یا سبحان اﷲ کہنا کہ اس چیز کی عمدگی خریدار پر ظاہر کرے، ناجائز ۔بلکہ حرام ہے۔ یونہی کسی بڑے کو دیکھ کر دُرود شریف پڑھنا اس نیت سے کہ لوگوں کو اس کے آنے کی خبر ہوجائے، اس کی تعظیم کو اُٹھیں اور جگہ چھوڑ دیں ، ناجائز ہے”۔ (درمختار، ردالمحتار)
از مولوی محمدثقلین
info@molvisaqlain.com